سیرت نبویؐ اور اخلاق حسنہ

    سیرت نبویؐ اور اخلاق حسنہ

    عبد الحی حسنی ندوی

    اسلامی تعلیمات کو صحیح طور پہ جاننے اور عملی طور پر برتنے کے لیے سیرت نبویؐ سے واقف ہونا نہایت ضروری ہے کیونکہ سیرت ہی ہے جو انسان کو غور و فکر پہ آمادہ کرتی ہے، اس میں سوچنے سمجھنے کا ملکہ پیدا کرتی ہے، مقصد حیات کا تعین کرتی ہے، حالات کا مقابلہ کرنے کی ہمت پیدا کرتی ہے، ناموافق حالات میں صبر کا عادی بناتی ہے، ہمدردی و غمخواری کا جذبہ موجزن کرتی ہے، کھانے پینے، سونے جاگنے، چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے کے آداب سکھاتی ہے، بڑوں سے ادب، چھوٹوں سے شفقت پر آمادہ کرتی ہے اور اپنے دائرہ سے نکال کر انسانیت کا آفاقی سبق پڑھاتی ہے، غرض سیرت طیبہ ہی ایک ایسا نسخہ ہے جس میں ہر پریشانی، ہر مسئلہ اور ہر بیماری کا علاج پوشیدہ ہے، جذبہ انسانیت سیرت ہی کے مطالعہ سے پیدا ہوتا ہے جبکہ سیرت کا مطالعہ نہ کرنے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ دلوں کا سکون غارت ہو جاتا ہے، انسان وحیوان کے درمیان کا فرق مٹ جاتا ہے۔ آپ کو معلم اخلاق اور رہبر انسانیت بنا کر مبعوث فرمایا گیا۔

     ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ:”اے محمد ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے“۔]الانبیاء:۷۰۱[ ارشاد نبوی ہے،ترجمہ: ”مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہے“۔ دوسری جگہ ارشاد فرمایا، ترجمہ:”میری تربیت اللہ تعالیٰ نے فرمائی اور کیا ہی خوب فرمائی“۔ طائف کے سفر میں آپ کو جن تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا، وہ نا قابل بیاں ہیں، پھر بھی آپ کی زبان مبارک پر ان کے لیے نرم رو یہ جملے تھے، قصہ کو بھلانا اور ضبط کرنا بڑی اعلیٰ صفت ہے جو برسوں کی ریاضت کے بعد کسی کو حاصل ہوتی ہے، اس کے فضائل بیان کر دینا تو آسان ہے مگراس پر عمل کرنا بڑا مشکل ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اندرایسی اعلیٰ صفت کوٹ کوٹ کر بھی ہوئی تھی، ایک جگہ ارشاد فرمایا،ترجمہ:”نرمی جس چیز میں ہوتی ہے اسے نکھار دیتی ہے اور جس چیز سے نرمی کو نکال دیا جائے وہ بدنما ہو جاتی ہے“۔ اسی نرمی اور محبت نے آپ کی ذات کو مثل آفتاب و ماہتاب بنا دیا تھا جس کی روشنی اپنوں اور غیروں سب کے لیے تھی، جس کے دروازے سب کے لیے یکساں کھلے ہوئے تھے جس کا فیض ہر ایک کے لیے عام تھا، آپ کے اخلاق حسنہ ہی سے اسلام پھیلا،ایمان والوں کی تعداد میں آہستہ آہستہ اضافہ ہوتا رہا، کوئی کلام الٰہی کو سن کر تو کوئی آپ کے اخلاق و اخلاص سے متاثر ہو کر اسلام میں داخل ہوا۔ صحابہ کرام ؓکی زندگیاں آپ کی روشن تعلیمات کاعکس جمیل تھیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے،ترجمہ:”محمد اللہ کے رسول ہیں، اور جو ان کے ساتھ ہیں کافروں پر نہایت سخت اور آپس میں نہایت نرم“]سورۃ الفتح [۔جو قوم گھوڑوں کے آگے پیچھے ہو جانے پر سالہا سال کے لیے جنگ چھیڑ دیتی تھی، وہ تو محض آپ کی تعلیمات سے متاثر ہو کر اور آپ کے اخلاق کا عملی نمونہ دیکھ کر آپس میں ایسے شیر و شکر ہو گئے کہ اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، اس کو سمجھنے کے لیے مواخات کا باب پڑھ لینا کافی ہے۔ اصحاب رسول ابتداء اسلام میں بڑے صبر آزما مراحل سے گزارے گئے کیونکہ ابتداء اسلام میں باری تعالیٰ کا حکم تھا۔ اپنے ہاتھ روکے رکھو، جوابی کاروائی نہ کرو اور نماز قائم کرو]النساء:۷۷[۔ حضرت عمار بن یاسر اور ان کی والدہ حضرت سمیہ مسلمان ہوئیں، بنومخزوم ان کو باہر لاتے اور مکہ کی سخت گرمی دیتے ہوئے صحراء میں طرح طرح کی اذیتیں پہونچاتے۔ حضرت بلال حبشی جب اسلام میں داخل ہوئے تو امیہ بن خلف ان کی گردن میں رسی ڈال کر لڑکوں کے ہاتھ میں دے دیا کرتا،وہ آپ کو مکہ کی پہاڑیوں میں تپتی ہوئی ریت پر ان کو لٹا دیا جاتا اور گرم پتھر ان کے سینہ پر رکھ دیے جاتے، پھر بھی آپ کی زبان مبارک پر ’أحد أحد‘ کی صدا جاری رہتی۔ حضرت خباب بن ارت کے سر کے بال کھینچے جاتے،گردن مروڑی جاتی، بار ہا آگ کے انگاروں پر لٹایا جاتا۔ حضرت عثمان بن عفان کے چچا کو جب ان کے اسلام لانے کی خبر ہوئی تو انہیں کھجور میں باندھ دیتا اور نیچے سے دھواں دیا کرتا تھا۔ حضرت مصعب بن عمیر کو ان کی والدہ نے اسلام لانے کی وجہ سے گھر سے نکال دیا تھا۔ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو قریش گائے، اونٹ کے چمڑے میں لپیٹ کر دھوپ میں پھینک دیتے تھے۔بعض کو لوہے کی زرہ پہنا کر جلتے ہوئے پتھروں پہ لٹا دیا کرتے تھے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ان سب کو برداشت کرتے رہے، اسلام کے لیے انہیں کن کن مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑا مگر اسلام کا دامن ہاتھ سے نہ چھنا، تکلیف پر صبر کرتے رہے مگر پھر بھی اللہ سے شکوہ نہ کیا۔ صابر و شاکر رہ کر زندگی گزاری۔

     یہ ایسے واقعات ہیں جن سے دل دہل جائے اور ایسے بھی واقعات ہیں جنہیں پڑھ کر اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے میں سہولیات فراہم ہوتی ہیں، اور جذبات ابھرتے ہیں، انسان کا ضمیر مردہ نہیں ہوتا، جب آپؐ کے اصحابؓ کو سخت آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا تو ہجرت کی اجازت دے دی گئی، حضرت مصعب بن عمیر ؓکی دعوت کے نتیجے میں مدینہ میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ہوگئی، انھوں نے آپ کو مدینہ آنے کی دعوت دی، آپ نے صحابہ کرامؓ کومدینہ کی طرف ہجرت کی اجازت دے دی، مدینہ آتے وقت صحابہ کرامؓ بڑے ہی صبر آزما مراحل سے گزرنا پڑا، البتہ آنے کے بعدعبادت و تجارت اور روز مرہ کی ضروریات میں کوئی دشواری نہ رہی، یہاں اجتماعی معاشرہ کی تشکیل وجود میں آئی، اور احکام ربانی کا نفاذ ہوا، تو اللہ تعالیٰ نے مشرکوں وکافروں سے قتال کی اجازت دے دی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے، ترجمہ: ”اور ان سے جنگ کرو تا کہ زمین پر فتنہ و فساد نہ رہے اور خدائی کا دین ہو“]انفال: ۹۳[ مکہ کی ۳۱/ سالہ مدت کی زندگی صبر و برداشت اور علم وعضو کی اعلیٰ مثال ہے، ایک طرف طائف کے واقعہ کا تصور کیجیے، دوسری طرف غزوہئ احد میں آپ کے دندان مبارک شہید کیے گئے اور آپ کی زبان مبارک سے صرف یہ الفاظ نکلتے ہیں، ترجمہ:”اے اللہ! میری قوم کو ہدایت دے، یہ نہیں جانتے“۔ جبکہ فتح مکہ کے روز آپ کو مکمل غلبہ اور اقتدار حاصل تھا، چاہتے تو دشمنوں سے انتقام لے لیتے کہ جنہوں نے آپ کو اذیت پہونچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی لیکن ارشاد نبویؐ ہوتا ہے، ترجمہ:”جاؤ تم سب آزاد ہو،تمہارا کوئی مواخذہ نہیں“۔

     چچا حضرت حمزہ کی شہادت ہوتی ہے،ان کو شہید کرنے والے وحشی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر معافی کے خواستگار ہوتے ہیں، رحم کے طالب ہوتے ہیں،حق کی تلاش میں ہیں، آپ کی طرف سے معافی کا پروانہ مل جاتا ہے، کلیجہ چبانے والی ابوسفیان کی بیوی ہندہ بھی حاضر ہوتی ہیں اسلام قبول کرنے لیے، بیعت کی درخواست کرتی ہیں، آپ ان کو بھی بیعت میں شامل فرما لیتے ہیں، مشرکین کے سر کردہ لیڈر حضرت ثمامہ بن اثال جب گرفتار کیے جاتے ہیں، مسجد نبویؐ کے ایک کھمبے سے باندھ دیے جاتے ہیں، آپ ان کے پاس تشریف لے جاتے ہیں، خیریت پوچھتے ہیں،ثمامہ کہتے ہیں: اگر قتل کا حکم دیتے ہیں تو ایک ایسے شخص کو تلاش کریں گے جو واجب القتل ہے، اگر احسان کریں گے تو احسان مند پائیں گے، اگر مال چاہتے ہیں تو بتادیں میں مال آپ کی خدمت میں حاضر کر دوں، آپ خاموش رہتے ہیں، اگلے دن بھی یہی گفتگو ہوتی ہے، آپ خاموش رہتے ہیں، تیسرے دن بھی یہی گفتگو ہوتی ہے،آخر میں آپ فرماتے میں:ثمامہ کو آزاد کردو، لیکن ثمامہ پر علم و اخلاق کا جادو اثر کر چکا ہوتا ہے، جاتے ہیں،جاتے ہی غسل کرتے ہیں اور کلمہ شہادت کا اقرار کرتے ہیں، کیا متمدن دنیا اس کی مثال پیش کر سکتی ہے؟

     حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے آپؐ کے اخلاق کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: آپ اخلاق میں قرآن کا عملی نمونہ تھے، آپ کی روشن تعلیمات حسن اخلاق کا حسین پیکر ہیں، آپؐ نے فرمایا:جوڑ وان کو جوتم سے قطع تعلق کریں، ان کو دو جوتم کو محروم رکھیں، ان لوگوں کو معاف کردو جوتم پر ظلم کریں ]الجامع الصغیر: ۱۸۲۱[، یہ صفات آپ تک ہی محدود نہ تھیں، بلکہ آپ کی روشن تعلیمات اور آپ کی بابرکت صحبت کے نتیجہ میں صحابہ کرامؓ کے اندر بھی یہ صفات منتقل ہوئیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے،ترجمہ:”تمہارے لیے رسول کی ذات ایک نمونہ ہے جو اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر یقین رکھتا ہو اور ذکر کرتا ہو“۔ کیونکہ آپ کی تربیت بذات خود اللہ تعالیٰ نے کی اور آپؐ کے صحابہ کی تربیت آپ کے ہاتھوں فرمائی، اس لیے صحابہ بھی ہمارے لیے اسوہ و مقتدیٰ ہیں، انہی کے راستے سے ہمیں زندگی گزارنے کا سلیقہ ملا۔

     یہ ہیں نبوی زندگی کے چند نمونے، کیا ان میں سے کوئی نمونہ ہماری زندگی میں ہے؟ کیا اس پر عمل ہو رہا ہے؟ نہ ہمارے پاس نبوی اخلاق ہیں، نہ ہمارے پاس وہ ایمانی طاقت ہے جو صحابہ کرامؓ کے اندر تھی، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم پلٹ کرحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کریں اور اس کو عملی زندگی میں اپنانے کی کوشش کریں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی ہمارے لیے ایک مکمل نمونہ ہے، اس لیے کہ ہدایت آپ کی اتباع کے ساتھ مشروط کردی گئی ہے: ”وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ“ (اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کروتا کہ تم ہدایت پا جاؤ)۔

    ٭٭٭٭٭