اعمال کی قبولیت میں نیت کی درستگی ضروری

    اعمال کی قبولیت میں نیت کی درستگی ضروری

    مولانامحمد خالد غازیپوری ندوی

    انسان زندگی کاطرۂ امتیاز اسکی نیت ہے، نیت میں اللہ رب العزت نے بڑی تاثیر رکھی ہے،ہروہ عمل جوانسان کرتاہے اس کا اجرو ثواب بھی ملے اوراللہ رب العزت کے یہاں اسے قبولیت بھی حاصل ہو،اس کے لیے دوچیزوں کی ضرورت ہوتی ہے،اورانہی دوچیزوں کی وجہ سے ایک مسلمان کاعمل دوسروں کے عمل سے ممتاز ہوجاتاہے:

    ۱-یہ کہ وہ عمل اللہ کی رضا کے لیے ہو۔

    ۲-یہ کہ وہ درست طریقہ پہ ہو۔

    یعنی سنت کے مطابق ہو،مثلاًنماز ہے، اللہ کے لیے پڑھی جائے اوردرست طریقہ یہ ہے کہ جس طرح اللہ کے رسول صلی اللہ وسلم سے ثابت ہے، اس طریقہ پرتمام شرائط کوملحوظ رکھتے ہوئے پڑھی جائے، اس کواخلاص اور صواب بھی کہتے ہیں اور اس پراجروثواب کا دارومدار بھی ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”انّما الأعمال بالنیات“ یعنی اعمال کامدار نیتوں پرہے،عمل میں خود تاثیر نہیں، اس کی فعالیت مقاصد کے تابع نیت کی وجہ سے ہوتی ہے۔

    اس لیے حدیث شریف میں آتاہے کہ قیامت کے دن تین لوگوں کوپہلے طلب کیا جائے گا:۱-شہید،۲-عالم، ۳-سخی۔ شہید سے سوال ہوگاکہ تم کومیں نے زندگی کی نعمت کے ساتھ ایمانی نعمت سے بھی نواز اتھا اوربہت سی نعمتوں سے بھی سرفراز کیاتھا،تم نے میرے لیے کیاکیا؟ وہ کہے گاکہ رب کریم!میں نے تیرے دین کے لیے جان ہتھیلی پرلے کر کفارو مشرکین سے جہاد کیا، یہاں تک کہ شہادت پائی۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے:تم نے تواس لیے جہاد کیاتاکہ تم کومجاہد کہاجائے اوربہادر ودلیرہونے کی حیثیت سے شہرت حاصل ہواوروہ چیزتم کومل گئی،لہٰذا اب تمہارے پاس کیاہے اورپھر اسے  اوندھے منھ جہنم میں ڈال دیاجائے گا۔اس طرح عالم کواور سخی کوطلب کیاجائے گااوران سے بھی یہی سوال ہوگا اوران کا بھی جواب یہ ہوگاکہ ہم نے تیری خاطر علم حاصل کیا اور تیرے دن کی ترویج واشاعت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا،سخی کہے گا کہ میں نے اپنامال تیرے راستہ میں خوب خرچ کیا، ان سے بھی یہی کہا جائے گا کہ یہ سب کچھ ناموری اور شہرت کے لیے کیاگیااوروہ چیزیں مل گئیں، اب کیا بچاجوہمارے لیے ہوسکے اورجب ہمارے لیے کچھ لاتے توہمارامعاملہ بھی تمہارے ساتھ وہی ہوتا جودوسروں کے ساتھ ہوگا اورانھیں بھی اوندھے منھ جہنم میں جھونک دیاجائے گا۔

    بظاہرتینوں کے اعمال نیک ہیں، اچھے اور درست ہیں لیکن رضائے الٰہی کی نیت نہ ہونے سے قبولیت کی دہلیز تک وہ اعمال نہیں پہونچ سکے اورنتیجہ خراب ہوگیا، اس طرح عمل کرنے میں رضائے الٰہی کا لحاظ کیاجائے لیکن درست طریقہ یعنی سنت کے مطابق وہ عمل نہ ہو تووہ عمل بھی قابل قبول نہ ہوگا۔]جامع ترمذی[

    لہٰذا ہمیں اپنے اعمال میں ان دوباتوں کاخیال رکھنا چاہیے، اس میں اخلاص کی کار فرمائی ہو، اور نیت کی درستگی یعنی سنت کے مطابق ہو، اگرایسانہ ہواتوبڑا خطرہ ہے، عمل کے ساتھ نیت بھی اچھی ہوتی ہے اورنیت بری بھی ہوتی ہے لیکن اکثر اعمال ہمارے بے نیت ہوتے ہیں جوآخرت کے اعتبار سے اکارت جاتے ہیں، اس نے ہمیں ہرعمل میں اللہ کی رضا کی نیت کرنی جاہیے، یہاں تک کہ کھانے پینے، ملاقات کرنے،بیوی سے مباشرت کرنے اورمریض کی عیادت کرنے، کسی کے کام آنے، مدد کرنے اورمشکلات کو حل کرنے میں اچھی نیت کرلینی چاہیے، اس سے ہرکام دین ہوجا ئے گا اوردنیا کے ساتھ دینی نافعیت بھی حاصل ہوجائے گی،اور اپنا کچھ الگ سے بھی نہیں جائے گا،اللہ تعالیٰ ہم سب کواچھی نیت کی توفیق عطا فرمادیں۔

    ٭٭٭٭٭