اصل نفع اور مطلوب ومقصود
March 20, 2023اسلام‘ انسان کے لیے انتہائی ضروری عنصر
مولاناڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی ندوی
جب ہم اس وسیع تر دنیا میں اللہ کی افضل ترین مخلوق کا جائزہ لیتے ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ وہ مخلوق انسان ہی ہے، اللہ تعالیٰ اپنی مقدس کتاب میں تخلیقِ انسانی کے مراحل ومنازل کا تذکرہ پورے اختصار واجمال کے ساتھ بیان فرماتے ہیں: ثُمَّ أنْشَأنَاہُ خَلْقاً آخَر فَتَبَارَکَ اللّٰہُ أحْسَن الْخَالِقِیْنَ]مؤمنون:۱۴[ (پھر ہم نے اس کودوسری ہی مخلوق بنادیا، وہ کیسی بڑی شان ہے اللہ کی جوتمام صنّاعوں سے بڑھ کر ہے)، اگرانسان کا ئنات کی دوسری مخلوقات کے مقابلے میں ایک امتیازی حیثیت نہ رکھتا، تو اللہ تعالیٰ اس کی اہمیت کو نہ بڑھاتا اور اس کے مقام کو بلند نہ کرتااورنہ یہ شرط لگاتاکہ وہ اپنی اس عقل سلیم کا صحیح استعمال کرے جس کے ذریعہ خیروشر، نفع وضرر اور بھلے برے کے درمیان فرق کرسکے، اور اللہ کے متعین کردہ حدود سے تجاوز نہ کرے، تاکہ دنیا وآخرت میں کامیاب ہو کر زندگی گذار سکے، اور اپنی دنیوی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو، وہ اپنے مقام ومرتبہ کو پہچانے، اور اپنے رب سے اور انسانوں کے ساتھ اس کاکیسا تعلق ہوناچاہئے،اس سے بھی آگاہ رہے، اور اپنے فرض منصبی کاجائزہ لیتا رہے،وہ اپنی ذمہ داری کا بھی احساس رکھے، پھر یہ کہ اس کے اپنے حقوق وفرائض ہیں جو انسان کی سعادت وکامیابی اور پوری مخلوق پر اس کی برتری کے لیے ثابت شدہ ضمانت کی حیثیت رکھتی ہیں،اور یہی وہ انسان ہے جو اپنے رب کریم سے ہر وقت ڈرتا رہتا ہے،یہی وہ بشر ہے جو اپنی خواہشات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی کامل شریعت اور طورو طریق کے تابع بنادیتا ہے۔
انسا ن کی دوسری قسم وہ ہے جو اپنی خواہشات کی تابع ہے، اتباع نفس کے مکروفریب، شیطان کے بہکاوے اورپھندے میں ہے، گویا وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے سرکشی کی اور دنیوی زندگی کوترجیح دی، وہ اپنی حیثیت اور اپنے مرتبہ سے نا آشنا اور نابلد رہا، دنیوی زندگی میں وہ اپنے کردار سے ناواقف ہوا، وہ توصرف اور صرف اپنی حقیر تمناؤں، برے خیالات اور باطل تصورات، غلط نظریات، بے بنیاد وبے کارمقاصد اور حقیر لذتوں کا شکار بنا، وہ ظلم کے طریقے اختیارکرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا،وہ صرف اپنی مفادپرستی کی خاطر اور اقتدار کی ہوس میں نیز عیش پرستی سے زندگی بسر کرنے کے لیے ہر طرح کے اخلاقی حدود سے تجاوز کرتا ہے او ر انسانی قدروں کی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔
اسلام انسانیت کی اصلاح اور انسان کو نظام تکوینی سے مربوط رکھنے کے لیے آیا، پست معیار سے اعلیٰ اقدار کی طرف نکالنے کے لیے برپا ہوااور انسانی جرائم اور اخلاقی بیماریوں سے نکا ل کر اس کو عزت وعظمت کی بلندیوں پر پہنچانے کے لیے ظہور پذیر ہوا، وہ عالمی معاشرہ جو ماقبل اسلام، بے راہ روی کا شکارتھا وہ اسی حقیقت کی تصدیق کرتا ہے جس کی اصلاح نہ کسی علم سے ممکن تھی، اور نہ کسی تہذیب کے ذریعہ، نہ کوئی طاقتور ملک اس کی اصلاح کرسکا، نہ یہ کسی عظیم الشان شخصیت کے بس میں تھا،اور نہ کو ئی عقلی فلسفہ ہی اس پر قادر تھا جو حیوانیت کے گڈھے میں گرے ہوئے اور درندگی کے دلدل میں پھنسے ہوئے بے قیمت وبے وزن انسان کو انسانیت کا اصل مقام دے سکے، یہاں تک کہ سابقہ مذاہب بھی اس کو صحیح رُخ پر لاکھڑا کرنے میں اس کا ساتھ نہ دے سکے، اسلام ہی وہ مذہب ہے جو انسانیت کی تعمیر کرتا ہے، اس کا شیوہ ہے کہ وہ دوسروں کوفائدہ پہنچائے، وہ لوگوں تک بھلائی اور خیر پہنچانے کا پیغام عام کرے، یہی وہ اسلام ہے جس نے انسان کو اس کے بلند مقام ومرتبہ سے روشناس کرایا، زندگی کی تعمیر اور مثالی معاشرہ عطا کرنے میں اس کے عظیم کارنامہ اور کردار کا صحیح تعارف کرایا، اور اس کو ایسے طریقے سکھائے جن کو اختیار کرکے دنیا کو نئی زندگی اورولولہ عطا ہو، لوگ اس شخص کے اندر موجود بے بہا صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائیں، اور نیک انسانی مقاصد کو بروئے کار لاکر اپنی زندگی کو اسکے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں، ان کی شانِ امتیازی محبت وایمان،تواضع وخاکساری، عدل وانصاف اور نصیحت وخیرخواہی ہو، ان میں اللہ کے راستے میں جان ومال کی قربانی پیش کرنا اور ہر قسم کے فضائل ومناقب کی نشر واشاعت بھی شامل ہو۔
اس طرح انسان نے اپنی کھوئی ہوئی قیمت کو پہچانا، اور اسلام کی ان تعلیمات پر عمل کرکے سعادت وخوش بختی کے درجات کو حاصل کیا جن کی طرف اسلام نے اس کی توجہ مبذول کرائی، اور ان کے ذریعہ زندگی کے رخ کواس کے تمام معاملات میں شرسے خیر کی طرف، ذلت سے عزت کی طرف،غلوپسندی سے اعتدال پسندی کی طرف اور خرابی وبگاڑ سے توازن وسنجیدگی کی طرف پھیردیا۔
اللہ تعالیٰ نے دنیا کی بقاء، زندگی کے سکون و قرار، انسانیت کی ہدایت اور اس کو تاریکیوں سے روشنی کی طرف نکالنے کا فیصلہ فرمادیا ہے،چنانچہ یہ کفر وشرک کی تاریکیوں سے ایمان کی کشادگی و وسعت کی طرف اور جہالت وضلالت کے راستوں سے علم وعمل کی شاہراہ کی طرف ایک عظیم انسانی تبدیلی تھی، اس حقیقت وصداقت کو دیکھ کر اس کی بصارت اوردور اندیشی لوٹ آئی، اب اس پر اسلام کا درخشند ہ و تابناک ستارہ جگمگاتا ہے، اس کے سامنے ایمان وفرمانبرداری والی زندگی کی فرمانروائی ہوتی ہے، یہ توصرف اورصرف خدا کی قدرت کی وہ کاریگری ہے جو اس پرایسی وسیع تر اور ہمہ گیر زندگی کا مقصد واضح اور روشن کررہی ہے جو ہر زمانہ میں اور ہرجگہ دنیا وآخرت کی کامیابی وسعادت کی ضامن ہے۔
انسان زندگی اور وجود کائنات کے راز کو سمجھ چکا ہے، اس لیے کہ اس کا تعلق اپنے رب سے، پریشانی وخوشحالی اور فائدہ ونقصان ہر حالت میں جڑا ہواہے اور ایمان ویقین کی بنیاد پر قائم ہے اور یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ خوش بختی وکامرانی کاراستہ ہر اس شخص کے لیے کھلا ہوا ہے جو اللہ کی عبادت وفرمانبرداری کرناچاہتا ہے،اور ان تمام ہدایات ونصائح اورتعلیمات کے سامنے سرتسلیم خم کرتا ہے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بطریق وحی عطا کی گئی ہیں، یہیں سے انسان اپنی زندگی کاسفر از سرنوشروع کرتا ہے، اور اس راستہ کو بدل ڈالتا ہے جن کو وہ پہلے بغیر ہدایت کے خواہشات نفسانی اور شیطان کی پیروی میں اپنائے ہوئے تھا، اب وہ ان تمام راہوں کو چھوڑ کر اللہ کے سیدھے راستے کی اتباع کرتا، اور ان عادتوں سے باز آجاتا ہے جنھوں نے اس کو اصل راستہ سے منحرف کردیا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے انسانی اخلاق کی تعمیر جدید کے لیے،موجود ہ برائیوں کی اصلاح کے لیے اور تاریک دائرہئ حیات اور زندگی کے جملہ شعبوں کو روشنی عطا کرنے کے لیے شریعت کو نازل فرمایا، چنانچہ اللہ کی شریعت دائمی،ابدی اورسرمدی نعمت ہے جو زمانہ کے اسباب و عوامل سے کبھی متاثر نہیں ہوتی، وہ کبھی بھی اپنی شناخت وحیثیت نہیں کھوتی، بلکہ طول مدت کے باوجود بھی ہمیشہ بر قرار رہتی ہے،کسی حالت میں اس کا قدم ڈگمگا نہیں سکتا، اور نہ اس کے قدم میں کبھی جنبش پیدا ہوسکتی ہے،اس فطری طریقہ کو اختیار کرکے انسان نفس پرستی اور حقیر زندگی کو چھوڑکر اتباع حق اور سعادت وعزت والی دائمی زندگی کی طرف لوٹ جاتا ہے، اسی زندگی کے ذریعہ اس نے ایمان کی حلاوت محسوس کی ہے اورتقویٰ کی لذت پائی ہے، نیز انسانیت کے ذریعہ پایہئ تکمیل تک پہنچا،اور اس کا مقام و مرتبہ مخلوق کے مابین بلند ہوا، ارشاد ربانی ہے:
‘‘وَلَقَدْکَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاھُمْ فِي الْبَرِّوَالْبَحْرِوَرَزَقْنَاھُمْ مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاھُمْ عَلَی کَثِیْرٍمِّمَّنْ خَلَقْنَاتَفْضِیْلاً’’ [اسراء: ۷۰](یقینا ہم نے آدم کی اولاد کو عزت وشرف کا تاج عطا کیا، اور ان کو خشکی وتری ہر جگہ رزق دئے، نیز اپنی دیگر مخلوقات پر فضیلت بخشی)۔
انسان نے زمین پر خلافت کی باگ ڈور سنبھالی، جبکہ فرشتوں نے اس کے اس بڑے عہدہ کی بخشش وعنایت پر نکیر کی تھی،کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ یہ تو زمین میں فساد برپا کریں گے،او ر خونریزی کریں گے،لیکن اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے اس اعتراض کو مسترد فرمادیا، اور ان سے جواباًیوں عرض کیا ‘‘جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے’’ کیا یہ سب چیزیں اس بات پر حجت نہیں ہیں کہ انسان کا مقام ومرتبہ بہت بلند ہے، وہ پورے عالم کا ایک ایسا عنصر اورفرد ہے جو افراد سازی کے میدان میں معمار کی حیثیت رکھتا ہے۔
اسلام کا پیغام اور اس کی بنائی ہوئی تہذیب نیز مسائل ومشکلات کاحل نکالنے اورعلمی وتہذیبی تبدیلیوں کا سامنا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے ودیعت کیے ہوئے علمی اوصاف و شرائط کے اندر غور و فکر سے کام لینے والا شخص اس راز کو ضرور پالے گا، کہ اسلام ہی انسان کا اصل رہنمااوراس کے لیے باطل کی تاریکیوں اور مخالف حالات میں روشنی کا ایک مینار ہے،یہ کوئی سماجی ومعاشرتی مذہب یاخود ساختہ دینی طریقہ یا سیاسی نظریہ اور اقتصادی فلسفہ نہیں ہے جو صرف مصائب زندگی اورگردش زمانہ سے نکلنے اور نجات دلانے میں انسان کا ساتھ دے سکے، اور اس کو مادی اور اخلاقی گراوٹوں اور انحطاط کے نتیجہ میں درپیش آزمائشوں اور پریشانیوں سے بچا سکے جس نے اسے اصل شاہراہ سے دور رکھ کر مادی زندگی کے سمندر میں غرق کردیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک تہذیب اور قانون فطرت عطا کیا ہے اس کے ذریعہ ہرفساد کی اصلاح، انفرادی واجتماعی زندگی میں ظلم وستم کے خاتمہ اور تمام زمان ومکان میں حیاتِ بشری کی خوش بختی وفلاح اوراس کی سعادت وخوش بختی کی ضمانت حاصل ہے،اگریہ بلند ترین مقاصد نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ زندگی، کائنات اور انسان کو عطا کی گئی اسلام جیسی نعمت کے بارے میں کوئی اور فیصلہ فرماتے،اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اسلام کو ایک ایسا مکمل دائمی اور ہمہ گیردین بنا کربھیجا ہے، جس کے ساتھ جز اوسزا اور حشر ونشر وابستہ ہے، اسی پر عزت وشرافت بھی موقوف ہے، اس میں بھر پور سکون واطمینان مہیا ہے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
‘‘اَلْیَوْمَ أکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ، وَأتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِي، وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإسْلاَمَ دِیْناً’’[مائدہ:۳] (آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا، اور تم پر اپنی نعمتیں پوری کردیں، اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسند کیا)۔
یہ سب خصوصیات انسان کے مفاد ونفع کے لیے ہیں جس نے دنیا کی قیادت کی باگ ڈور سنبھالی ہے،پھر یہ سارے امتیازات ان ابدی و سرمدی ارشادات و فرمودات اور نصا ئح کی روشنی میں اس کو تاریکیوں سے روشنی کی طرف نکالنے کے لیے ہیں، جن کا دارومدار کلام اللہ اور حدیث نبوی پر ہے:
‘‘لَقَدْکَانَ لَکُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰہِ أسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ، لِمَنْ کَانَ یَرْجُواللّٰہَ وَالْیَوْمَ الآخِرَوَذَکَرَاللّٰہَ کَثِیْراً’’ [احزاب:۲۱] (تمہارے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک بہترین نمونہ ہے اس شخص کے لیے جو اللہ اورآخرت کے دن پرایمان ویقین رکھے، اور خد ا کو خوب خوب یادکرے)۔
اب ہمیں اس بات پر یقین کرنے کے لیے ہر طرح کا جواز موجود ہے کہ اسلام در اصل انسان کے لیے انتہائی ضروری عنصرہے، اسکے بغیر اس کی زندگی ناقص، اس کا معاشرہ بے جان اور اس کی ساری جدو جہد رائیگاں ہے۔