کتنا خوفناک ہے یہ عذاب

انسانی زندگی کے دو پہلو
January 15, 2018
کیا ہم ایسا کرسکتے ہیں؟
March 11, 2018
انسانی زندگی کے دو پہلو
January 15, 2018
کیا ہم ایسا کرسکتے ہیں؟
March 11, 2018

کتنا خوفناک ہے یہ عذاب

لوگ کہتے ہیں کہ یورپ میں سارے بگاڑوفسادکے باوجودعذاب خداوندی کیوں نہیں نازل ہوتاہے؟ اصل میں عذاب کی شکلیں مختلف ہوتی ہیں ،خالق کائنات کی قدرت بے پایاں ہے، اس لیے عذاب بھی ایسی ایسی شکلوں میں آتاہے جن کولوگ عذاب کی معروف شکلوں میں نہیں دیکھتے اورنہ بظاہروہ عذاب معلوم ہوتاہے، لیکن وہ بسااوقات عذاب کی معروف شکلوں سے بھی زیادہ خوفناک واذیت ناک ہوتاہے ،ایک شخص کوہم تندرست وتوانادیکھتے ہیں نہ کہیں درد ہے نہ بخار، لیکن وہ عجیب خوف وگھبراہٹ میں مبتلا ہوتاہے ،مایوسی، خطرات وحوادث کے وساوس اس کوگھیرے رہتے ہیں۔

یورپ کاسماجی، معاشرتی اورخاندی شیرازہ جس طرح منتشر ہواہے، مردوعورت دونوں ہی صنفیں جس طرح تنہائی وبے کسی محسوس کررہے ہیں حتی کہ انس و محبت جوفطرت انسانی میں داخل ہے، اس کوحاصل کرنے کے لیے کتوں کاسہارالینے پرمجبورہوگئے ہیں کہ کتااپنے آقاکاوفادارہوتاہے ،کیاکہاجائے گااس تہذیب کوجس میں انسان انسان سے بھاگے اور خوف کھائے لیکن کتوں سے محبت کرے جوجانوروں میں بھی سب سے ذلیل سمجھاجاتاہے ،کیایہ عذاب نہیں؟انسان کی فطرت میں داخل ہے کہ وہ انسان خاندان کی کھلتی کلیوں کودیکھ کرخوش ہوتاہے، اس سے پیارومحبت کرتاہے، اس کی طفلانہ اداؤں اورمعصومانہ مسکراہٹ اس کے دل کی دنیاکوباغ وبہاربنادیتی ہے۔

لیکن انسان جب ان کھلتی کلیوں کومسل دیاکرے ،توڑ کرپھینک دیاکرے توکیاوہ انسان کہلانے کامستحق ہوگا؟ذراتصور و خیال کی د نیامیں اپنے سامنے ایک معصوم بچے کی تصویرلائیے ،بھولی بھولی موہنی سی صورت، معصوم ساچہرہ ،خوبصورت آنکھیں، چھوٹے چھوٹے ہاتھ ،ننھی ننھی انگلیاں، وہ کچھ ڈراورخوف محسوس کرے توماں سے لپٹ جائے، باپ کے گلے میںبانہیں ڈال کراپنے کومحفوظ قلعہ میں محسوس کرے، لیکن یہی ماں باپ جب اس کواس لیے قتل کردیں کہ وہ ان کی رنگ رلیوں میں حارج نہ ہو،یااس لیے قتل کردیں کہ ان کی غذا کامسئلہ نہ پیداہوتوایسے ماں باپ کوکیاکہاجائے گا؟ قتل یہی نہیں کہ چھری سے بچے کی گردن کاٹی جائے ،قتل یہ بھی ہے کہ ماں کے رحم ہی میں جبکہ بچہ ابھی اپنی جسمانی ساخت وبناوٹ کے مراحل سے گذررہاہے، کسی بھی ذریعہ سے اس کوختم یا خارج کردیاجائے،کوئی صاحب عقل بتائے کہ آم کے باغ میںپھول آرہے ہیں، باغ والااس کی دیکھ بھال میں لگاہواہے ،ایک شخص جاتاہے اورپھولوں کو جھاڑناشروع کردیتاہے ،کیاباغ کامالک اس پھول جھاڑنے والے کے ساتھ وہی معاملہ نہیں کرے گا جوآم توڑنے والے کے ساتھ کرتاہے ؟پھرانسان کا خالق ومالک اس کوکیسے پسندکرے گاکہ بچوں کورحم مادرہی میں ختم کردیاجائے ،خارج کردیاجائے ۔

یہ توبات ہوئی ان نوزائیدوں یارحم مادرمیں وجودپانے والے بچوں کی جوبیوی اورشوہرکریں خواہ وہ کسی بھی مذہب یاملکی عرف ورواج کے مطابق ایک دوسرے سے جڑے ہوں، اس شادی والے رشتہ میں جڑے بغیر مردوعورت کاباہمی ر بط و ملاپ انسانی سوسائٹی میں بہرحال معیوب ہی سمجھا جاتاہے اورفطری حیا و شرم، گھر،خاندان یاسوسائٹی میں رسوائی کاخوف، کچھ توروک لگاتاہے، لیکن اسقاط حمل کوعالمی پیما نے پرقانونی شکل دے کراس بچی کچھی فطری حس کابھی صفایا کردینا اور انسانی پستی کے لیے چوپٹ دروازہ کھول دیناکیاا س انسان کوجواشرف المخلوقات ہے، جس کی دوسری مخلوقات پہ فرمانروائی ہے، خنزیر اور کتوںسے بھی نیچے گرادینے کے مرادف نہ ہوگاجوذلت ورسوائی کے لیے بطورمثال بیان کیے جاتے ہیں،اس کی وجہ یہ ہے کہ اصول اخلاق کے مقابلہ میں جذبات وخواہشات کی پیروی کانتیجہ یہ ہوتاہے کہ فطرت انسانی مسخ ہوتی چلی جاتی ہے، وجدان سلیم ماؤف اوراخلاقی حس مفلوج ہوکررہ جاتی ہے اورانسان مسخ فطرت کے اس درجہ کوپہنچ جاتاہے جہاں حیوان بھی نہیں پہنچتا۔

کائنات کے بنانے والے خدانے ا نسان کوا س لیے پیدا کیااوراس کودنیامیں بسایاکہ اس کانام زیادہ سے زیادہ لیا جائے، اس کی قدرت بے پایاں کا ظہورہو،اس اسلام کی مسلم آبادی کوبڑھانے کاحکم ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پرفرمایا :’’انی اکاثر بکم الأمم‘‘ (میں چاہتاہوں کہ تمہارے ذریعہ دوسری امتوں پراپنی امت کو زیادہ دیکھو ں)

لہٰذا ہروہ چیزجواللہ ورسولؐ کے منشا کے خلاف ہواورفطرت انسانی کے بھی خلاف ہو،وہ اللہ تعالیٰ کوپسند نہیں، یوروپ ملحدوبے دین ہے ،لہٰذااس فکرکی رسائی صرف انسانی مفروضوں اورعقل انسانی کی حدودہی تک ہوسکتی ہے ،آگے کی بات وہ سمجھ ہی نہیں سکتا کہ اس کے لیے انبیاء کرام کے علوم وتعلیما ت کوماننے اورتسلیم کرنے کی ضرورت ہے، خاتم الانبیاء حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن کی تعلیمات ساری انسانیت کے لیے قیامت تک کے لیے طے شدہ ہوگئی ہیں، ان میں بھی شکوک وشبہات پیداکرنے کی پوری کوشش کرچکا، اور برابر کوئی نہ کوئی شوشہ اس کو ناکام و کمزور ثابت کرنے کے لیے چھوڑتارہتاہے،اور برابر اس کوشش میں لگاہواہے کہ انسانوں میں جو لوگ آخرت کو مانتے اور تسلیم کرتے ہیں اور اس کے مطابق زندگی گزارنا چاہتے ہیں،وہ ان کے مقصد آخرت کو بھلادے اور ان کوبھی اپنا جیسا بنالے،اور وہ بہائم کی طرح زندگی گزارنے لگیں،انسانیت ختم ہوجائے اور انسان آوارہ کتوں جیسی زندگی گزارے۔

باقی رہاانسانوں کی ایک بڑی تعداد کا رزق کی تنگی اور غربت وفقر کی زندگی گزارنا،تو یہ بھی قدرت کا ایک حکیمانہ فیصلہ ہے کہ وہ دیکھے کہ میرے بندے غرباء کے ساتھ کیا معاملہ کرتے ہیں،اگر یہ نہ ہوتو ہمدردی،محبت وخدمت،ایک دوسرے کی مدد اور سہارادینے کے کیا معنی ہوں گے؟!

اتنا ہی نہیں بلکہ اس نے غریب اور محتاج بندوں کے بڑے فضائل کے لیے یہاں تک فرمایا کہ:’’غریب ونادار لوگ مالداروں سے پانچ سو سال پہلے جنت میں جائیں گے‘‘۔

شمس الحق ندوی

 

٭٭٭٭٭