شیخ الحدیث مولانا محمد یونس جونپوری کا حادثۂ وفات

مدارس عربیہ کے نئے تعلیمی سال کا آغاز
July 10, 2017
رمضان کے بعد حج کے چرچے ہوجاتے ہیں
August 14, 2017
مدارس عربیہ کے نئے تعلیمی سال کا آغاز
July 10, 2017
رمضان کے بعد حج کے چرچے ہوجاتے ہیں
August 14, 2017

شیخ الحدیث مولانا محمد یونس جونپوری کا حادثۂ وفات

شیخ الحدیث مولانا محمد یونس جونپوری کا حادثۂ وفات

شمس الحق ندوی

منگل ۱۶؍ شوال المکرم ۱۴۳۸ھ مطابق۱۱؍جولائی ۲۰۱۷ءدس بجے دن میں مظاہر العلوم سہارنپور کے شیخ الحدیث مولانامحمد یونس جونپوری نے داعیٔ اجل کو لبیک کہا،اور اپنے اس مالک سے جاملے جس کے حبیب محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث کی تعلیم وتدریس میں عمر گذاری تھی،انا للہ واناالیہ راجعون۔
مولانا محمد یونس ،حضرت شیخ الحدیث مولانامحمد زکریا کاندھلوی قدس سرہ کے فن حدیث اور وسعت علم میں صحیح جانشین تھے،ان کی پوری زندگی تقریباً اتنی ہی مدت تدریس حدیث میں گذری،جتنی مدت مولانامحمد زکریاؒ کی گذری تھی،مولانامحمد یونس جونپوریؒ مطالعۂ حدیث اور درس حدیث میں ہمیشہ مشغول رہے اور اس کے علاوہ کوئی دوسری مشغولیت انہوں نے اختیار نہیں کی ،ان کے ہزاروں شاگردوں نے ان کے دلکش ومحققانہ درس سے فیض حاصل کیا،اورپھر یہ فیض دوسروں تک پہونچایا ،مولانامطالعۂ حدیث وتدریس میں اتنے سرمست و سرشار رہتے کہ پوری زندگی تجرد میں گذاردی،اور بے شمار شاگردوں کا روحانی صدقۂ جاریہ چھوڑگئے،مولاناکی مجلسوں میں اکثر حدیث ہی کی شرح وتحقیق کی باتیں ہوتی تھیں، تاہم مولاناحالات حاضرہ سے باخبررہنے کی پوری فکر کرتے تھے،’’تعمیر حیات‘‘کا بڑے ذوق وشوق سے مطالعہ فرماتے تھے،تعمیر حیات میں کبھی ان کو حالات حاضرہ پر تبصرہ یا محققانہ مضمون نہ ملتا تو اس کے مدیر سے شکایت ہوتی،ان کو دارالعلوم ندوۃ العلماء اور اس کے کارکنان سے ذہنی وفکری اعتبار سے بڑا گہرا تعلق تھا،جب ان سے ملاقات ہوتی تو محبت واخلاق سے اور انشراح کے ساتھ باتیں کرتے،علامہ شبلی نعمانیؒ اور علامہ سید سلیمان ندویؒ کی علمی تحقیقات کے قدردانوں میں تھے،اور اپنے درس میں بھی ان کا حوالہ دیتے، دارالعلوم ندوۃ العلماء کئی بار تشریف لائے، اور ایک دودن قیام بھی فرمایا،اور ان کی فاضلانہ مجالس رہیں،تدریس حدیث کے ساتھ اتباع سنت کا پورا اہتمام فرماتے،خلاف سنت وضع قطع پر ٹوکتے تھے،اگر کسی کو ان کا ٹوکنا ناگوار ہوتاتومعذرت کرتے کہ بھائی ہم نے تو اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنانے کے جذبہ سے کہاتھا،مولاناکافی عرصہ سے علیل چل رہے تھے،لیکن تکلیف کی شدت میں بھی ان کا علمی وتدریسی کام جاری رہتاتھا،ادھر ایک دوسال سے بہت تکلیف بڑھ گئی تھی،مولانااپنے شاگردوں سے بڑا مشفقانہ برتاؤ کرتے تھے،اور ان کے ساتھ محبت بھرااندازختیار کرتے تھے،اس لیے ان کے شاگرد ان سے بڑی محبت کرتے تھے،ان کی شخصیت طالبین حدیث میں بہت محبوب تھی،فن حدیث میں ان کی شروح وتحقیقات مدرسین حدیث کے لیے قیمتی سرمایہ ہیں،وہ حضرت شیخ الحدیث کے سچے جانشین تھے،اور علمی جانشینی کے ساتھ روحانی سلسلہ میں بھی ان کے خلیفہ ومجاز تھے،اس نسبت سے اصلاح وتربیت کا بھی ان کا ایک حلقۂ اثر تھا جس میں ان کے کئی حضرات مجاز بھی ہیں۔
مولاناکی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ ان کو حضرت شیخؒ ہی کی طرح حسدومنافست سے کوئی مناسبت نہیں تھی،بس اپنے کام سے کام تھا،اس سلسلہ میں حضرت شیخ کی قیمتی کتاب ’’الاعتدال فی مراتب الرجال‘‘ پر ان کا عمل تھا،اس لیے ان سے ہر ایک محبت کرتاتھا،حضرت شیخ الحدیث کے افراد خاندان سے تو گویا ان کا خاندانی تعلق تھا،علم حدیث میں ان کے مقام اور ان کی سندوں پر مولاناڈاکٹرمحمد اکرم ندوی(اسلامک سنٹر،آکسفورڈ یونیورسٹی،لندن) کی کتاب ’’الفرائدفی عوالی الاسانید وغوالی الفوائد‘‘ ایک گراں قدر تعارف ہے۔
حدیث میں ان کے افادات وتحقیقات کا ایک مجموعہ نوادر الحدیث اور فقہی افادات کا مجموعہ نوادر الفقہ شائع ہوکر مقبول ہوچکاہے،دوسال قبل ان کی طبیعت سفر حج(جس کا ہرسال کا معمول تھا) میں بہت ناساز ہوگئی تھی،اللہ تعالیٰ نے شفا عطافرمائی اور سہارنپور آکر درس حدیث کا سلسلہ شروع فرمایا،اور اس کے ساتھ صحیح بخاری شریف کی زیر تصنیف جامع شرح کو تکمیل کو پہونچانے کاکام شروع کیا ،جس کی ایک جلد ’’نبراس الساری‘‘کے نام سے طبع ہوچکی ہے،جس سے انہوں نے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہونچائی،اور ایک کتب خانہ یادگار چھوڑا ،جسے اپنے زیر تدریس ادارہ مظاہر علوم کے لیے وقف کرچکے تھے۔
مولاناکا جنازہ عصر بعد شاہ کمال قبرستان لے جایاگیا،اور ان کے محبوب استاد حضرت مولاناشاہ اسعد اللہ سابق ناظم جامعہ مظاہر علوم کے پہلو میں ان کی وصیت کے مطابق تدفین عمل میں آئی،نماز جنازہ اور تدفین میں غیر معمولی ہجوم سے ان کی مقبولیت ومحبوبیت کا اندازہ ہوتاہے،تھوڑے وقت میں اطراف واکناف سے اس طرح لوگ بزبان حال ٹوٹ پڑے کہ ع
عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے بھی خبر سنتے ہی اساتذہ کا ایک وفد روانہ ہوا،ان کی عمر اسی سال سے متجاوز تھی،تقریباً پچاس سال صحیح بخاری شریف کا درس دیاہے،یہ ایسا شرف ہے جو بہت کم لوگوں کے حصہ میں آیا ہوگا۔
مولانامحمد یونس جونپوری صرف حدیث وعلوم حدیث کے ہی ماہر عالم نہ تھے،وہ علوم شرعیہ تفسیروفقہ واصول اورعلوم ادبیہ لغت وبلاغت اور تاریخ و جغرافیہ کے بھی ماہر تھے،اور ائمۂ متقدمین ومتاخرین کے اقوال پر گہری نظر تھی،اور ائمہ کے مسالک اور دلائل پر بھی اچھی نظر رکھتے اور اپنے گہرے مطالعہ کی وجہ سے ایک مجتہدانہ شان رکھنے والے عالم کی حیثیت سے معروف ہو گئے تھے،مطالعہ کے تعمق وتوسع کے ساتھ تنوع بھی رکھتے تھے،اور حالات حاضرہ پر مضامین و مقالات کا بھی مطالعہ کرتے تھے۔
ادارہ ’’تعمیرحیات‘‘ناظم مظاہر علوم اور دیگر ذمہ داران سے اظہارِ تعزیت کرتاہے اور دعاکرتاہے کہ اللہ تعالیٰ ان کا بدل ادارہ کو عطافرمائے،آمین۔
٭٭٭٭٭