اپنی طرف دیکھنے کی فرصت نہیں

ایمان کا تقاضا
October 7, 2017
تعمیر حیات کے 54 برس مکمل
November 17, 2017
ایمان کا تقاضا
October 7, 2017
تعمیر حیات کے 54 برس مکمل
November 17, 2017

اپنی طرف دیکھنے کی فرصت نہیں

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ:’’ تم ایسے زمانہ میں ہو کہ اس وقت خواہشات علم کے تابع ہیں،لیکن عنقریب ایک ایسا زمانہ آنے والاہے کہ علم خواہشات کے تابع ہوگا‘‘۔(یعنی جن چیزوں کو اپنادل چاہے گا وہی علوم سے ثابت کی جائیں گی)۔
اس زمانہ میں مادیت اس زیب وزینت ،شان وشکوہ اور جاہ وجلال سے جلوہ افروز ہے کہ روحانیت اور تزکیۂ باطن کے حس لطیف تک نظر پہنچنے پاتی، دائیں بائیں اورآگے پیچھے کا خوشنما منظر اس کا موقع ہی نہیں دیتا کہ خود اپنی طرف دیکھاجائے:’’وَفِیْ اَنْفُسِکُمْ اَفَلاَ تُبْصِرُوْنَ‘‘۔
اس صورت حال میں علماء ومصلحین کو اپنے محاسبہ کے دن سے خاص طور سے ڈرنے کی ضرورت ہے،کہ ان کا محاسبہ بھی سخت ہے ،اور ان کی ذمہ داری بھی بڑھی ہوئی ہے،اور قیامت کا دن جس میں یہ محاسبہ ہوگا،بڑا سخت دن ہوگا۔
جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوہریرہ سے فرمایا کہ :’’من قال لا الٰہ الا اللّٰہ دخل الجنۃ‘‘ تو انہوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولؐ! کیا میں لوگوں کو اس کی خبر کردوں،تو آپ نے فرمایا:ہاں!انہو ں نے کہا کہ آپ کوئی علامت دے دیجیے تاکہ میں کہہ سکوں کہ میں آپ کے پاس سے آرہاہوں،اور آپؐ نے یہ فرمایاہے،چنانچہ آپ ؐ کا جوتا لے کر چلے،اتفاق سے سب سے پہلے حضرت عمررضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی،ان سے جب حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا تو حضرت عمرؓ نے ان کے سینہ پر ایسا زور کا دھکا دیا کہ وہ گرپڑے،وہ بارگاہِ نبویؐ میں شکایت کے لیے چلے،حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی ساتھ چلے،جب انہوں نے مارنے کی شکایت کی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:اللہ کے رسول! لوگ پھر کلمہ پر اکتفا کرلیں گے،عمل میں کوتاہی کریں گے،حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس بات پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خاموشی اختیار فرمائی۔اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو بڑی سوجھ بوجھ سے نوازا تھا،کئی موقعوں پر آپؓ کی رائے قابل عمل ہوئی،حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ:’’لوکان بعدی نبی لکان عمر‘‘ یعنی ہمارے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتے۔
چنانچہ حضرت انسؓ کی حدیث سے اس کی تائید ہوتی ہے،حضرت انسؓ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ: کلمہ ’لاالٰہ‘ اللہ کی ناراضگی سے لوگوں کومحفوظ رکھتا ہے،جب تک کہ دنیا کی تجارت کو آخرت کی تجارت پر ترجیح نہ دیں،اور جب دنیا کی تجارت کو آخرت کی تجارت پر ترجیح دینے لگیں اور پھر لاالٰہ کہیں تو یہ کلمہ ان پر یہ کہہ کر لوٹا دیاجاتاہے کہ تم جھوٹ بول رہے ہو،(یعنی تمہارااقرار جھوٹاہے ،محض زبانی جمع خرچ ہے)۔
ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص ’’لا الٰہ الا اللّٰہ وحدہ لاشریک لہ‘‘ کی گواہی کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے ملتاہے ،وہ سیدھا جنت میں جاتاہے،جب تک کہ اس کے ساتھ دوسری چیز کو خلط نہ کردے،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے تین مرتبہ یہ فرمایا،حاضرین میں سے ایک شخص نے عرض کیا،میرے ماں باپ آپ پر قربان !دوسری چیز خلط کرنے کا کیامطلب ہے؟حضور صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا:دنیا کی محبت اور اس کی ترجیح،اس کے لیے مال جمع کرنا،اور دنیا کی چیزوں سے خوش ہونا اور متکبر لوگوں کاساعمل۔
ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے ارشاد فرمایاکہ دنیا اس شخص کا گھر ہے جس کا آخرت میں گھر نہیں،اور دنیا اس شخص کامال ہے جس کا آخرت میں مال نہیں،اور دنیا کے لیے وہ شخص مال جمع کرتا ہے جس کو بالکل عقل نہیں،علماء دین چونکہ ان باتوں سے واقف ہوتے ہیں،اس لیے ان کو اللہ تعالیٰ کا خوف ہوتاہے:’’اِنَِّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَائُ‘‘ یعنی علماء ہی اللہ سے ڈرنے والے ہیں،لیکن جب علماء حب دنیا کے سبب تاویلات کے جال میں پڑجائیں،توبڑے خطرہ کی بات ہے،ایسی کہ توبہ کی بھی توفیق نہ مل سکے۔
حضرت شیخ الحدیث مولانامحمد زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مفید ومؤثر کتاب ’فضائل صدقات‘میں فرمایا: ’’بعض بزرگوں کا ارشاد ہے کہ صحابۂ کرام کے زمانہ میںشیطان نے اپنے لشکروں کو چاروں طرف بھیجا،وہ سب پھر پھراکر نہایت پریشان حال اورتھکے تھکائے واپس ہوئے،اس نے پوچھا کیاحال ہے؟وہ کہنے لگے کہ ان لوگوں نے توہم کو پریشان کردیا،ہماراکچھ بھی اثر ان پر نہیں ہوتا،ہم ان کی وجہ سے بڑی مشقت میں پڑگئے،اس نے کہا گھبراؤ نہیں،یہ لوگ اپنے نبی( صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم)کے صحبت یافتہ ہیں ،ان پر تمہارااثر مشکل ہے،عنقریب ایسے لوگ آنے والے ہیں جن سے تمہارے مقاصد پورے ہوں گے،اس کے بعدتابعین کے زمانہ میں اس نے اپنے لشکروں کو سب طرف پھیلادیا،سب کے سب اس وقت بھی پریشان حال واپس ہوئے،اس نے پوچھا کیاحال ہے؟کہنے لگے کہ ان لوگوں نے تو ہمیں دق کردیا،یہ عجیب قسم کے لوگ ہیں،ہماری اغراض ان سے کچھ پوری ہوجاتی ہیں،مگر جب شام ہوتی ہے تو اپنے گناہوں سے ایسی توبہ کرتے ہیں کہ ہماراکیاکرایا سب برباد ہوجاتاہے،شیطان نے کہا گھبراؤ نہیں ،عنقریب ایسے لوگ آنے والے ہیں جن سے تمہاری آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں گی،وہ اپنی خواہشات میں دین سمجھ کر ایسے گرفتار ہوں گے کہ ان کو توبہ کی بھی توفیق نہ ہوگی،وہ بددینی کو دین سمجھیں گے‘‘۔[فضائل صدقات:ج۲/ص۹۷]
بددینی کو دین سمجھیں گے،اس کی تشریح کی ضرورت نہیں،صحیح العقیدہ ایک عام مسلمان بھی اس کو جانتاہے،قرآن وحدیث ہی اسلام کی طاقت اور اصل سرچشمہ ہیں جن سے ہمہ وقت طاقت حاصل کی جاسکتی ہے،اور جن کے ذریعہ سے ہرزمانہ میں مسلمانوں کے کمزور سے کمزور ڈھانچہ میں دینی روح پھونکی جاسکتی ہے۔
ہمیں غور اس پر کرنا چاہیے کہ اس سرچشمہ کو اگر اپنی خواہشات میں پڑ کر تاویلات کا راستہ بنالیاجائے،توآخرت کی جوابدہی بڑی کٹھن ہوگی،ایک حدیث میں ہے کہ بعض لوگ قیامت کے روز اتنے زیادہ اعمال لے کر آئیں گے جیسا عرب ملک کے پہاڑ،لیکن وہ جہنم میں ڈال دیے جائیں گے،کسی نے پوچھا یارسول اللہ ! کیا یہ لوگ نمازی ہوں گے؟آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا:نمازی بھی ہوں گے،روزہ داربھی ہوں گے،بلکہ تہجد گذار ہوں گے ،لیکن جب دنیا کی کوئی چیز دولت،عزت وغیرہ سامنے آجائے تو ایک دم اس پر ٹوٹ پڑیں گے،جائزوناجائز کی بھی پرواہ نہیں کریں گے۔
اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے تاویلات کے جال میں پڑنے سے بچائے کہ پھر تو توبہ کی بھی توفیق نہ ملے گی۔
شمس الحق ندوی